حضرت ابراھیم ؑ کوآگ میں ڈالا جانے کا واقعہ

حضرت ابراھیم ؑ کوآگ میں ڈالا جانے کا واقعہ

اسلام علیکم

حضرت ابراھیم ؑ نے لوگوں کے ساتھ عید گاہ جانے سے انکار کیا اور عذر پیش کیا کہ وہ بیمار ہیں۔وہ لوگ آپکو چھوڑ کر چلے گئے۔بعد میں ابراھیم ؑ اُن بتوں کے پاس گئے اور دیکھا کہ اُن بتوں کے سامنے کھانا پڑا ہے چونکہ سب لوگ کھانا لائے تھے اس لیے کھانا بہت زیادہ تھا لیکن اُن جھوٹے معبودوں نے اُسے کھانا تو در کنار اُسے چھوا تک نہ تھا۔ابراھیم ؑ نے بتوں کو مخاطب کر کے کہا یہ اتنا کھانا تمہارے سامنے پڑا ہے تم اسے کھاتے کیوں نہیں ہو تمہیں کیا ہو گیا کہ بات تک نہیں کرتے۔ پھر پوری قوت سے کلہاڑیو کے وار کر کر کے اُن بتوں کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے لیکن بڑے بُت کو چھوڑ دیا تاکہ سب اُسی کی طرف رجوع کریں تمام چھوٹے بتوں کو توڑ کر کلہاڑا اُسی بڑے بُت کے کندھے پر لٹکا دیا۔مشرکین جب میلے سے لوٹے تو دیکھا کہ سب بُت اُوندھے منہ ٹوٹے پڑے ہیں۔ اُنکے تمام معبودوں کو توڑ دیا گیا تھا۔وہ حیران رہ گئے کہ یہ سب کیسے ہو گیا کس نے کیا ۔کہنے لگے یہ کام کس ظالم کا ہے ااُس نے ہمارے معبودوں کی توہیں کی ہے۔وہ لوگ جنہوں نے ابراھیم ؑ کی باتیں سن رکھی تھیں۔

اُنہیں ابراھیمؑ  کاخیال آ گیا۔وہ کہنے لگے وہ نوجوان جسکا نام ابراھیم ؑ ہے ہم نے اُسے اپنے بتوں کی مذمت کرتے سُنا ہے۔اللہ کی قدرت ابراھیم ؑ کا جو مقصد تھا وہ خود بخود  پورا ہو رہا تھا۔قوم کچھ لوگ مشورہ کر رہے تھے کہ سب کو جمع کرو اور اابراھیمؑ کا  بلاؤ اور سزا دو۔چنانچہ تمام اہلِ باطل چھوٹے بڑے جمع ہو گئے کاروائی شروع ہو گئی۔

کہنے لگے ! ابراھیمؑ ہمارے معبودوں کے ساتھ یہ غلط حرکت تو نے کی ہے؟

ابراھیمؑ نے جواب دیا کہ” یہ سب کام تو اس بڑے بُت کا ہے مجھ سے کیوں پوچھتے ہوتم اپنے معبودوں سے کیوں نہیں پوچھ لیتے کہ اُنکے ٹکڑے کس نے کیے ہیں”۔

ابراھیمؑ کا جواب سُن کر وہ لوگ سوچ میں پڑ گئے۔

اور کہنے لگے ہم نے بڑی غلطی کی جو اپنے معبودوں کے پاس کسی کو حفاظت کے لیے نہیں چھوڑ کر گئے۔

اس قدر ظاہر بات کر کے بھی وہ لوگ ایمان نہ لائے بلکہ شیطان نے اُنکے دلوں میں وسوسا ڈالااور اُنہوں نے غوروفکر کر کے کہا ۔اے ابراھیمؑ  کیا تمہیں علم نہیں یہ تو بے زبان ہیں  یہ بول نہیں سکتے۔

اب ابراھیم ؑ نے فرمایا! تب تم پھر اللہ کے سوا اُس چیز کی عبادت کرتے ہوجو تمہیں کچھ بھی نفع نہ دے سکے اور نہ نقصان پہنچا سکے تعجب ہے تم پراور اُن پر بھی جنہیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو کیا تمہیں بالکل عقل نہیں۔اسطرح ابراھیمؑ نے اُن پر حقیقت خوب اچھی طرح واضح کر دی۔انسے فرمایا تم انکی پوجا کرتے ہو جنہیں تم خود تراشتے ہویعنی اُنکا حال تو یہ ہے کہ تم نے اُنہیں خود اچھی طرح تراشا  اور اُنکی عبادت کرنے لگے جب کے تمہیں اور تمہاری بنائی ہو ئی چیزوں کو اللہ ہی نے پیدا کیا ہے۔ابراھیمؑ نے ایک کلہاڑے کی مدد سے سب بتوں کو تہس نہس کر دیا تھا یہ اس بات کی واضح ترین نشانی تھی کہ یہ بالکل بے بس ہے۔

لیکن اس واضح نشانی کے باوجود وہ اپنے کفر ہی پر ڈٹے رہے ۔وہ لوگ حضرت ابرھیم ؑ کو دھمکیاں دینے لگے اور کہنے لگے اس کے لیے ایک آتش کا کنواں بناؤ اور ابراھیم ؑ کو اسکی  دہکتی آگ میں ڈال دو پھر اس کام کے لئیے ایک میدان کا انتخاب کیا گیا اور اس میدان کو پتھروں کی مدد سے باڑ لگائی گئی پھر سب لوگوں کو حکم دیا گیا کہ سب لوگ لکڑیاں اکٹھی کر کے اس گھیری ہوئی جگہ پہ رکھیں۔ چنانچہ سب لوگ لکڑیاں اکھٹی کر کے اُس گھیری ہوئی جگہ پہ لانے لگے یہاں تک کے عورتوں اور بچوں نے بھی اس کام میں بڑھ چڑھ کے حصہ لیا۔ میدان میں اس قدر لکڑیاں جمع ہو گئی تھیں کے زمیں نظر نہیں آتی تھی لکڑیاں اسطرح رکھیں گئی تھیں کے زمیں پر ایک اُونچی دیوار محسوس ہوتی تھی پھر ان لکڑیوں کو آگ لگائی گئی  آگ کے شعلے آسمان سے باتیں کرنے لگے  تو اُنہوں نے ابراھیمؑ کو آگ میں ڈالنے کے لئیے ایک جھولا تیار کیا۔اُس جھولے میں حضرت سیدنا ابراھیم ؑ کو بٹھایا  گیا

اُس وقت آپ نے یہ دُعا پڑھی

ترجمہ “ہمیں اللہ ہی کافی ہے اور وہ بہترین کارساز ہے” سورتہ آل عمران ، آیت : 173

یہ کلمہ ہر محتاج اور ہر مصیبت زدہ کو پڑھنا چاہیے

حضرت محمدﷺ نے فرمایا کہ ” حسبناللہ و نعیم الوکیل”

حضرت ابراھیم ؑ نے اُس وقت پڑھا تھا جب اُنہیں آگ میں ڈالا گیا تھا

مطلب یہ کہ “ہم اللہ ہی پر بروسہ کرتے ہیں اور اُسکے سوا ہمارا کسی پر بھروسہ نہیں”

بعض روایات میں آتا ہے کہ جب حضرت ابراھیمؑ کو آگ میں ڈالا جانے لگا تو حضرت جبرائیل ؑ آئے اور کہا “اے ابراھیم کوئی حاجت ہے تو میں حاضر ہوں”

ابراھیم ؑ نے فرمایا “اگر تم اپنی مرضی سے آئے ہو تو مجھے تمہاری کوئی ضرورت نہیں”

ایک دوسری روایت میں ہے کہ بارش کے فرشتے نے حاضر ہو کر کہا تھا کہ اے ابراھیمؑ ” مجھے حکم دی جئیے میں بارش برسا کر اس آگ کو بجھا دوں” لیکن ایسی تمام روایات ضعیف ہیں۔یوں بھی اللہ کا حکم اُنسے پہلے کام کرنے والا تھا۔

اللہ تعالیٰ سورہ انبیا آیت نمبر (69-70)میں فرماتے ہیں

“ہم نے کہا اے آگ ابراھیمؑ پر ٹھنڈی ہو جا اور سلامتی والی ہو جااُنہوں نے ابراھیمؑ کا بُرا چاہا ہم نے اُلٹا اُنہیں ہی نقصان پانے والا کر دیا”

چنانچہ جب حضرت ابراھیمؑ کو آگ میں ڈالا گیاتو وہ ٹھنڈی ہو گئی چھری اللہ کے حکم کے بغیر نہیں کاٹ سکتی

اس لئیے کے یہ بھی اللہ کی مخلوق ہے اور انکی قدرت بھی اللہ کے پاس ہےوہ چاہے تو انکو قدرت عطا کر دےچاہے تو قدرت واپس لے لےآگ کو ٹھنڈا ہونے کا حکم ہوا وہ ٹھنڈی ہو گئیاُسنے نہ ابراھیم ع کے کپڑے جلائےنہ جسم کے کسی حصے کو نقصان پہنچایا صرف وہ رسیاں جلائی جن سے آپ کو باندھا گیا تھا(سبحان اللہ)

لوگ آگ کے گرد اس انتظار میں کھڑے تھے کہ جو نہی حضرت ابراھیم ؑ کو آگ میں پھینکا جائے گا تو آپ جل کر راکھ ہو جائیں گئےلیکن وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ابراھیم ؑ بڑے ناز سے آگ کے درمیان بیٹھے ہیں بعض روایات میں آتا ہے کہ حضرت ابراھیم ؑ فرمایا کرتے تھے کہ مجھے جو آرام اور سکون اُس وقت حاصل تھا آگ ستے نکلنے کے بعد پھر کبھی میسر نہیں ہوالوگ اس معجزے کو دیکھ کر حیرت زدہ تھے

پھر ابراھیم ؑ آگ سے نکلے۔اتنا بڑا معجزہ دیکھنے کے بعد بھی لوط ؑ کے علاوہ پورے بابل شہر سے اُن پر ایمان لایا تھا۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں”پس ابراھیم پر لوط ایمان لائے”

مطلب یہ کے پوری بستی میں سے صرف لوطؑ ہی آپ پر ایمان لائے۔باقی تمام لوگ کفر ہی پر ڈٹے رہے۔ابراھیم ؑ اُنکا رویہ دیکھ کر نااُمید ہو گئے کہ اس سے بڑھ کر یہ اور کونسا معجزہ دیکھنا چاہتے ہیں اُنکے بتوں کو توڑ دیا گیا اپنی آنکھوں سے اللہ کی نشانی انہوں نے دیکھی پھر بھی وہ ایمان نہیں لائے چنانچہ آپ نے وہاں سے ہجرت کا ارادہ فرما لیا۔

پاکستان ٹائمز نیوز