اسلام علیکم
حضرت ابراھیم ؑ کی عمر 86برس ہو گئی تھی تاہم اولاد کی نعمت سے محروم تھے۔انہوں نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں کچھ اس طرح دُعا کی
“اے میرے رب مجھے نیک اور صالح بیٹا عطا کر “
یہ دُعا اللہ کی بارگاہ میں قبول ہوئی ۔اور آپکی دوسری بیوی حضرت ہاجرہ کے بطن سے حضرت اسمعیلؑ کی پیدائش کی خوشخبری سُنا دی گئی ۔ ابرانی زبان میں اسماعیل کا تلفظ شمعیل ہے (شمع کے معنی ہیں سُن اور عل اللہ کے متعرادف ہے )
چونکہ اولاد کے لئیے آپ ؑ کی دُعا سن لی گئی تھی ۔اسی لئیے آپؑ کا نام اسمعیل ؑ رکھا گیا ۔
حضرت سائرہ حضرت ابراھیم ؑ کی پہلی بیوی تھی ۔اس لئیے حضرت ہاجرہ کے بطن سے حضرت اسمعیل ؑ کی پیدائش کی خبر اُن پر شاک گزری ۔اس لئیے اُنہوں نے حضرت ابراھیم ؑ سے اسرار کیا کہ حضرت ہاجرہ اور اُنکے بیٹے حضرت اسمعیل ؑ یہاں سے دور کر دو ۔یہ لوگ میری نگاہ کے سامنے نہ رہیں ۔حضرت ابراھیمؑ کو یہ بات بہت ناگوار گزری مگر بارگاہِ الہیٰ سے جب حکم ہوا۔کہ حضرت ہاجرہ اور اسمیل ؑ کو عرب کے ریگستان میں چھوڑ دیا جائے ۔حضرت ابراھیم ؑ حضرت ہاجرہ اور حضرت اسمعیل ؑ کو اُسی جگہ لے آئے جہاں آج کعبہ ہے ۔اُس زمانے میں یہ جگہ بالکل غیر آباد تھی ۔ایک تھیلی کھجور اور ایک مشکیزہ پانی کے ساتھ آپؑ نے اُنہیں وہاں چھوڑ کر وہاں سے جب جانے لگے تو بی بی ہاجرہ نے اُنہیں روک کر پوچھا ۔ہمیں اس بیابان می چھوڑ کر آپ کہاں چل دئیے ،حضرت ابراھیم ؑ کی خاموشی پر حضرت بی بی ہاجرہ نے پوچھا کہ کیا یہ میرے رب کے حکم سے ہے ۔حضرت ابراھیم ؑ نے ‘ہاں ‘ میں جواب دیا ۔یہ سُن کر حضرت بی بی ہاجرہ نے اُنہیں وہا ں سے جانے دیا۔اور فرمایا ” ہمارے اللہ ہی کافی ہے”۔
حضرت ا براھیم ایسی جگہ پہنچے کہ ماں اور بیٹا کی آنکھوں سے اوجھل ہو گئے۔تو آپ نے اپنے دونوں ہاتھ بلند کے حضورعرض کیا ” اے میرے رب میں نے بسائی اپنی اولاد ایسے میدان میں جہاں کھیتی نہیں تیرے ادب گھر والے کے پاس اے رب ہمیں تا قائم رکھ ربط اے رب بعض لوگوں کے دل جھکا دے اُن کی طرف اور اُن کو روزی عطا فرمااپنے فضل سے تا کہ یہ شکر کریں “۔
حضرت ہاجرہ چند روز تک مشکیز ے سے پانی پیتی رہیں اور کھجوروں سے گزارا کرتی رہیں ۔اور حضرت اسمعیل ؑ کو دودھ پلاتی رہیں ۔ جب پانی اور کھجوریں ختم ہو گئی تب وہ پریشان ہو گئی ۔کیونکہ وہ خود بھوکی تھیں۔اس لئیے دودہ بھی نہ اُترتا تھااور بچے نےبھوک اور پیاس سے رونا شروع کر دیا تھا ۔بچے کی بےچینی دیکھ کر حضرت ہاجرہنے پانی کی تلاش شروع کردی تھی۔اور وہ صحفہ پہاڑی پر چڑھی کہ شائد کوئی اللہ کا بندہ نظر آجائے یا پانی مل جائےمگر کچھ نظر نہ آیا۔پھر وہ واپس وادی میں آگئی ۔پھر وہ دوسری پہاڑی مروہ پر چڑھیں کہ شائد کہیں پانی نظر آجائے۔اس طرح آپ نے سات چکر لگائے ممتا کا یہ جزبہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس قدر مقبول ہواکہ بیت اللہ کی زیارت پر آنے والے ہر فرد پر اللہ تعالیٰ نے صفحہ اور مروہ کے سات چکر لازم قرار دے دیا،ساتوں چکر پر جب آپ حضرت اسمعیلؑ کے پاس آئی تو دیکھا کہ جس جگہ حضرت اسمعیلؑ روتے ہوئے ایڑیارگڑ رہے تھے وہاں سےپانی کا چشمہ جاری ہو گیا ہے۔اور یہ چشمہ آج بھی موجود ہے ۔اور ہم لوگ اس آبِ ز م زم کے نام سے جانتے ہیں۔ہزاروں سال گزرنے کے بعد بھی چشمے کا پانی اسہ طرح جاری ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس میں مخلوق کے لئیے شفا رکھی ہے۔حضرت ہاجرہ یہ موجزہ دیکھ کربے حد خوش ہوئی اور اللہ تعالیٰ کاشکر ادا کیا۔ اُس کے بعد آپ نے حضرت اسمعیل ؑ کو پانی پلایا اور خود بھی اس سے مستعفید ہوئیں ۔اُسی وقت اللہ تعالیٰ کی جانب سے ایک فرشتہ نازل ہوا اور اللہ کی جانب سے وعید سنائی “اے حاجرہ آپ خوفزدہ نہ ہواور نہ ہی غمگین ہوں کیونکہاللہ تعالیٰ آپکو اور اس بچے کو ضائع نہیں ہونے دیں گاکیونکہ یہ اللہ کا گھر یعنی کہ مقام ِ بیت اللہ ہے،جسکو اس بچے اور اسکے باپ نے تعمیر کرنا ہے”۔کچھ عرصہ کہ بعد ایک بنو جورا نامی قبیلہ پانی کی فراوانی دیکھ کر حضرت ہاجرہ کی اجازت سے یہاں آکر آباد ہو گیا۔حضرت اسمعیل ؑ کا بچپن اسی قبیلے کے افراد کے درمیان گزرا ۔
ابھی حضرت اسمعیل ؑبچے ہی تھے کے حضرت ابراھیم ؑ نے خواب میں دیکھا۔کہ حضرت ابراھیم ؑ اپنےلختِ جگر کو اللہ کی راہ میں قربان کر رہے ہیں۔آپؑ نے مسلسل تین راتیں ایک ہی طرح کا خواب دیکھا۔لہذا آپکو یہ یقین ہو گیا کہ یہ خواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی ہے۔اور آپ ؑ نے اللہ کے حکم کی تعمیل کا ارادہ فرمایااور اپنا سارا خواب اپنے بیٹے حضرت اسمعیل ؑ کو سنایا۔اورپھر حضرت اسمعیل ؑ سے پوچھا میرے بیٹے میں تجھے اپنے خواب کے پیشِ نظر اللہ کی راہ میں قربان کرنا چاہتا ہوں۔بتا تیری کیا رائے ہے۔اس پر حضرت اسمعیلؑ نے انتہائی تحمل کے ساتھ فرمایا”بابا جان آپن اللہ کے نبی اور گربزیدہ بندوں میں سے ہیں۔ آپ بےفکر ہو کر اللہ کے حکم کی تعمیل کریں انشاءاللہ آپ مجھےانتہائی صبر والا پائے گئے۔چنانچہ یہ دونوں اللہ ک بندے حکمِ خداوندی کے لئیے گھر سے نکل کھڑے ہوئے۔روایات میں آتا ہے کہ ابلیس نے اُنہیں ناکام بنانے کے لئیے کئی طریقے اپنائے ۔ سب سے پہلے وہ بی بی حاجرہ کے پاس پہنچا اور اُنہیں بتایا کہ حجرت ابراھیم ؑ اپنے بیٹے کو اللہ کی راہ میں قربان کرنے چل پڑے ہیں ۔اس پر حضرت بی بی ہاجرہ نے فرمایااسمعیل ہماری اکلوتی اولاد ہے ابراھیم ؑ ایسا نہیں کر سکتے۔پھر ابلیس نے کہا کہ وہ ابراھیم ؑ کے حکم کے مطابق کر رہے ہیں۔اس پر حضرت ہاجرہ نے فرمایا اگر یہ میرے خالق کی رضا ہےتو میں اس پر راضی ہوں۔جب یہاں ابلیس کے سارے وار ناکام ہو گئےتو اُس نے حضرت ابراھیم ؑ کو اُکسانے کا ارادہ کیا اور اُنکے دل میں باپ کی شفقت کو اُبھارنے لگا۔کہا ابرھیم ؑ اسمعیل ؑ آپکی اکلوتی اولاد ہے اور آپ عمر رسیدہ ہیں۔ اِنہیں سے آپکی نسل ہے۔یہ آپ کیا کرنے جا رہے ہیں۔اس پر حضرت ابراھیم ؑ نے جواب دیا “مجھے میرا بیٹا اللہ نے دیا ہے،اور یہ میرے پاس اللہ کی امانت ہے،میں االہ کے حکم پر راضی ہوں،وہ جیسا چاہے حکم دے ہم اُس کے تابے اور فرمانبردار ہیں”۔
آپؑ کے جواب سےابلیس کو سخت مایوسی ہوئی ۔لیکن اُس نے آپ کو بہکانے کی اپنی ناکام کوشش جاری رکھی۔حتی کہ اُس نے حضرت اسمعیل ؑ کو بھی بہکایا لیکن وہ بھی اپنے مقصد پر ڈٹے رہے۔حضرت اسمعیل ؑ نے فرمایا ” میں اپنے رب کی رضا میں راضی ہوں”
میرے رب نے براہ راست میری قربانی کا حکم دیا ہےاور انبیا ء اکرام کے خواب سچے ہوتے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ ابلیس نے قربان گاہ میں جاتے ہوئے تین مرتبہ اُنکی راہ میں حائل ہونے کی کوشش کی ۔اور تینوں مرتبہ حضرت ابراھیم ؑ اور حضرت اسمعیل ؑ نے اپبلیس پر کنکر برسائےاور اُسے کامیاب نہ ہونے دیا۔یہی وہ سُنت ہے جسے ہر سال حجاج اکرام شیطان کو کنکر مار کر دُہراتے ہیں۔اور یہ سُنت رمیں کہلاتی ہے۔بالآخر دونوں باپ بیٹا وادی مینا میں پہنچے جہاں اسمعیل ؑ کو زبح کرنا تھا۔تب کائنات نے وہ منظر دیکھا جو اُس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔اور نہ شائد قیامت تک دیکھ پائے گا۔زمیں اور آسمان ساکت ہیں اور کائنات حیران ہے۔فرشتے آسمان سے زمیں پر عجیب منظر دیکھ رہیے ہیں۔
تبھی حضرت اسمعیل ؑ کہتے ہیں ابا جان آپ میرے دونوں پاؤں اور ہاتھ باندھ دیجئےتا کہ چھری چلاتے وقت آپکو کوئی دقت نہ ہواور میرا چہرا زمین کی طرف کر دیجیے گا اگر میرا چہرا آپکی طرف ہو گاکہیں آپکو مجھ پر ترس نہ آ جائےاُور آپ مجھے زبح نہ کر پائےاور کہا اباجان اپنی آنکھوں پو پٹی باندہ لیجیئے گا اور مجھے قربان کرنے کے بعد میرا کُرتا میری امی کو دے دیجئے گاتا کہ اُنہیں صبر آجائے۔باپ نے ان سب باتوں پر عمل کیا۔ بیٹے کا ماتھا چوما ہاتھ پاؤں باندھے اور زمیں پر منہ کے بل لٹا دیا اور چھری چلا دی۔لیکن چھری نے حضرے اسمعیل ؑ کو نہ کاٹا۔کیونکہ اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا ۔حضرت ابراھیم ؑ چھری چلاتےلیکن چھری نہیں چلتی ۔آپ ؑ اپنا سارا زور لگاتے ہیں مگر چھری چلنے کا نام نہی لیتی۔آپ ؑ چھری سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ اے چھری میرے ننھے اسمعیل کا گلہ تو بہت نازک ہے پر تو کوں نہیں چلتی ۔زمین ساکن آسمان کی ہر شئے حیران اور فرشتے پریشانئی سے دیکھ رہے ہیں۔تب اللہ تعالیٰ حضرت جنرائیل ؑ سے فرماتے ہیں ھبرائیل جاؤ اور جنت ست مینڈھا لے جاؤ۔میرا خلیل پیچھے نہیں ہٹے گا ۔جاؤ اور جا کے اس مینڈھے کی قربانی کرو۔حضرت جبرائیل ؑ جنت سے مینڈھا لے جاتے ہیں اور حضرت اسمعیل ؑ کو چھری کے نیچے سے نکال لیتے ہیں اور مینڈھا کو چھیری کے نیچے رکھ دیتے ہیں اور چھری کو بھی چلنے کی اجازت مل جاتی ہے۔اور چھری چل گئی تب حضرت ابراھیم ؑ کے ہاتھوں پر گرم خون لگااور بے ساختہ آپکی زبان سے نکلا اللہ اکبر یا اللہ تیرا شکر ہے۔لیکن جب آنکھوں سے پٹی اُتاری تو حضرت اسمعیل ؑ آنکھوں کے سامنے بالکل صحیح سلامت ٹھریں ہیں جبکہ چھری کے نیچے مینڈھا زنح ہوا پڑا ہے ۔حضرت ابراھیم ؑ کی تابعداری اور حضرت اسمعیل ؑ کی فرمانبرداری بارگاہ الہیٰ میں قبول ہوئی ۔اور اللہ تعالیٰ نے حضرت اسمعیل ؑ کو زبح ہونے سے بچا لیا ۔
یہی وہ قربانی ہے جسے تا قیامت مسلمانوں کے لئیے عملی نمونہ بنا دیا گیا ہے۔