اسلام علیکم
پوری دنیا میں ہیکنگ پھیل رہی ہے۔ ماضی میں ، یہاں تک کہ انتہائی حساس سرکاری ویب سائٹیں اور سرکاری تنظیمیں بھی ہیک اپ ہوچکی ہیں۔ مرکزی بچت کے مرکزی دفتر تک ، ذاتی بچت کے اکاؤنٹ سے لے کر ایک عام شخص ، کمپیوٹر اور موبائل فون کے اکاؤنٹس تک۔ سائبر دنیا میں ، ہیکنگ کو سائبر کرائم کے طور پر دیکھا جاتا ہے ، جو ایک سنگین اور مکروہ جرم سمجھا جاتا ہے ، جس کی پابندیاں بہت سخت رکھی گئی ہیں۔
اکاؤنٹ کو ہیک کیسے اور کیوں کیا جاتا ہے
سب سے پہلے تو یہ جاننا ضروری ہے کہ کسی اکاؤنٹ کو ہیک کیسے کیا جاتا ہے۔ یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ کوئی آپ کے اکاؤنٹس کے ذریعہ آپ کی سائٹ ، گھر کے پتے کو ٹریک کرسکتا ہے۔ اکاؤنٹ ہیکرز اسے اچھی طرح جانتے ہوں گے۔ تاہم ، یہاں ہماری معلومات کے مطابق ہم کچھ معلومات فراہم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔اکاؤنٹ ہیک کرنے کے بہت سارے طریقے ہیں۔ ہیکنگ میں ، ایک ثانوی کاپی پہلے تیار کی جاتی ہے اور پھر اس کاپی پیج ای میلز کے لنک کو ٹیسٹ کرنے کےلئیے اکاؤنٹ کے مالک کو بھیج دیا جاتا ہے۔ یہ لنک کسی بھی دلچسپ ، غیر معمولی معلومات ، تصاویر یا ویڈیو کے ساتھ دستیاب ہے جو عام طور پر کسی کو راغب کرتا ہے۔ جب کوئی صارف اس جعلی فیس بک پیج پر کسی لنک پر کلک کرتا ہے تو ، صفحہ اس کے صارف نام اور پاس ورڈ کے لئے پوچھتا ہے۔ . جب کوئی صارف اپنا صارف نام اور تفصیل درج کرکے اس صفحے میں داخل ہوتا ہے تو ، ان کی تمام تفصیلات اس شخص کو فراہم کردی جاتی ہیں جس نے لنک پوسٹ کیا تھا۔ اس جعلی کہانی کو کہانی سنانے کو دے دی جاتی ہے۔ بہت سے مؤکل دوسروں کو کہتے ہیں کہ وہ اپنا کچھ مواد فیس بک کے ذریعے پسند کریں اور اس طرح اس کو پسند کرنے کے چکر میں ، صرف آپ کی معلومات ان تک پہنچ جاتی ہے۔
URL
در حقیقت ، اگر آپ جس صفحے پر داخل ہورہے ہیں اس پر یو آر ایل بار کو دیکھیں تو ، یہ فیس بک یا جی میل کا پتہ نہیں ہوگا ، بلکہ کسی سائٹ کا URL ہوگا ، لیکن صفحہ آپ کے سامنے آرہا ہے۔ ہوسکتا ہے یہ فیس بک یا جی میل سے ہو۔ درحقیقت ، اس میں ایک ہی ڈیزائن والے صفحے کا استعمال کیا گیا ہے ، جو لوگوں کو بہت تیزی سے دور کرتا ہے۔ وہ لاگ ان معلومات چوری کرلیتے ہیں اور وہ اسے نہیں جانتے ہیں۔
ایک سائٹ فراہم کی جاتی ہے جب بہت سارے لوگ ویب سائٹ خریدنے یا غیر ضروری ویب سائٹ میں داخل ہونے کے لئے وہاں ایک ویب سائٹ کھول رہے ہیں۔ آپ سے اس صفحے پر ایک اکاؤنٹ بنانے کو کہا گیا ہے۔ ان لوگوں کے لئے جن کو بھی ای میل اور معلومات کی ضرورت ہوتی ہے ، آپ کا ای میل اور معلومات مناسب شخص کے پاس بھی جائیں۔
آسان طریقہ
کسی ہیکنگ کی حیثیت کا تعین کرنے کا آسان اور آسان طریقہ یہ ہے کہ وہ دوسری ویب سائٹوں کے ل لنک کا استعمال کریں جو آپ کو ان باکس یا ای میل ہیں۔ واحد وجہ یہ ہے کہ آپ اس پر کلک کریں۔ کسی بھی نیٹ ورک کنکشن کا ایڈریس جس سے آپ فون میں رسائی حاصل کرسکتے ہیں ، فوری طور پر میزبان کے پاس جاتا ہے۔ ایک ایڈریس عام طور پر آپ کا انٹرنیٹ ایڈریس ہوتا ہے۔
اکاؤنٹ ہیکنگ
یہ کہنا نہیں ہے کہ فیس بک یا کوئی دوسرا اکاؤنٹ ہیک نہیں کیا جاسکتا۔ تاہم ، احتیاطی تدابیر کے طور پر ، ہیکرز کی سب سے کم سطح سے بچا جاسکتا ہے۔ حفاظتی تحفظ کے حوالے سے ، آپ کے اکاؤنٹ کی معلومات کو کسی بھی طرح برقرار نہیں رکھنا چاہئے۔ اگر کوئی ای میل یا ان باکس استعمال کرتا ہے تو آپ دوسرا صفحہ استعمال کرتے ہیں اور آپ کو لاگ ان کرنے کے لئے کہتے ہیں تو آپ کو پہلے اس صفحے کا لنک (پتہ) ٹائپ کرنا ہوگا اور کسی اور براؤزر میں تلاش کرنا ہوگا۔
ابتدا میں فیس بک پر کافی تنقید بھی ہوئی تھی۔ نتیجے کے طور پر ، اجازت نامے کے بغیر اس اکاؤنٹ پر قبضہ کرلیا گیا۔ ہیکر صارف نام کے ساتھ کوئی بھی فیس بک اکاؤنٹ کھول سکتا ہے۔ تاہم ، جب فیس بک کے حکام کو شکایت موصول ہوئی تو ، فیس بک نے غلطی کو درست کرنا یقینی بنایا۔ تاہم ، یہ معلوم نہیں ہے کہ آیا فیس بک ایک طویل عرصے سے محفوظ اور مستحکم ہے۔ لوگوں کو بہت محتاط رہنا چاہئے کہ ان کے کھاتے میں ایسی کوئی چیز محفوظ نہ کریں جو ہیکر کے پاس نہیں ہوگا اگر آپ کی شناخت بہت محفوظ ہے۔ اپنے پاس ورڈ کی معلومات کو 2-3 مہینوں کے بعد اپ ڈیٹ کرنے کی کوشش کریں۔ دوسرے لوگوں کے کمپیوٹرز میں جاتے وقت محتاط رہیں۔ صرف اپنی اپنی کہانیاں قابل اعتماد مقامات پر استعمال کریں۔ یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ پاس ورڈ کبھی کبھی لاگ ان ہوتے ہوئے محفوظ ہوجاتا ہے۔ کسی بھی ای میل اکاؤنٹ کو ہیک کرنے میں بھی سیکیورٹی سوال اہم ہے۔ اپنے دفاع کو اس طرح سے مت سیٹ کریں جس کا کوئی تصور بھی کرسکے۔ اپنے بہترین استاد ، دوست ، وغیرہ کی طرح۔ اپنے اکاؤنٹ پر حملہ ہونے سے بچنے کے لئیے ، آپ کے پاس پہلا ای میل اور موبائل نمبر شامل کریں۔ لیکن دوسروں کو نہ دکھائیں ، وہاں ہیڈن آپشن کا استعمال کریں۔
نیا طریقہ
جب ہیکنگ کا نیا طریقہ سامنے آتا ہے۔ یہ طریقہ ہیکرز کے لئے بہت آسان اور کارآمد ثابت ہوا ہے۔ ہیکر کسی بھی طرح سے آپ کے موبائل فون پر وائرس لگا سکتا ہے۔ نیویارک کی ایک رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ موبائل نگرانی کے ہزاروں سوفٹویر سافٹ ویئر نجی اور حساس معلومات اور چوری کی معلومات ہیں۔ ۔ ٹیکنالوجی کمپنی کی تحقیق میں معلوم ہوا ہے کہ فیس بک، وائبر اور اینٹی وائرس کے علاوہ درجنوں مقبول ترین گیمز بھی صارفین کی ایسی معلومات طلب کرتی ہیں کہ جن تک ان کی رسائی نہیں ہونی چاہیے۔ یہ ایپس صارفین کی تصاویر، ویڈیوز، میسج، کال کی معلومات، لوکیشن اور یہاں تک کہ مائیکرو فون اور اسپیکر کی آواز بھی ریکارڈ کرسکتی ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ معلومات عام طور پر صارفین کو اشتہارات بھیجنے کی غرض سے اکٹھی کی جاتی ہیں لیکن ہمیں نہیں معلوم کہ ان کا اور کیا استعمال ہوتا ہے اور یہ معلومات کس کس کے پاس جاسکتی ہیں۔ پرائیویٹ معلومات تک غیر مناسب اور ضرورت سے زائد رسانی حاصل کرنے والی ایپس میں اینٹی وائرس ایپس سر فہرست ہیں، اس کے بعد وائبر اور فیس بک کا نمبر آتا ہے ۔اس کے لیے سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ جب بھی ایپ انسٹال کرنے لگیں وہاں پر موجود ہوتا ہے کہ آپ ایپ ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے کن کن چیزوں کے لیے الاؤ کررہے ہیں۔
غلطی
ہیکنگ میں سب بڑی غلطی ہماری اپنی ہوتی ہے۔ ہیکنگ کی وجوہات جاننے کے بعد آپ کو اندازہ ہورہا ہوگا کہ اس تمام ہیکنگ میں آپ کی اپنی غلطی ہوتی ہے۔ جب تک آپ کو ایک چیز کا معلوم ہی نہیں آپ اس لنک پر ہرگز نہیں جائیں۔ یہاں پر ایک افسوس کا امر یہ بھی ہے کہ بہت سی خواتین فیس بک کے آزادنہ استعمال کی وجہ سے کچھ بھنوروں کے چنگل میں پھنستی جارہی ہیں۔ گزشتہ دنوں کچھ ایسے کیس سامنے آئے کہ جنہیں سن کر بہت افسوس ہوتا ہے۔ کچھ لوگ فیس بک پر لڑکیوں سے دوستیاں کرتے ہیں پھر ان کی تصاویر لے کر انہیں ہراساں کیا جاتا ہے۔ اگر آج اپنے ارد گرد کے ماحول کا جائزہ لیں تو آپ کو ہر دس میں کوئی نہ کوئی ہراساں ہوتی لڑکی مل جائے گی جس کی بنیادی وجہ وہ لڑکی خود ہوتی ہے۔ یہ بھی ہیکنگ کی ایک قسم ہے۔ کوئی آپ کو اپنے جال میں پھنسا کر آپ سے آپ کے اکاؤنٹ تک لے کر اس میں جو چاہیے کرتا ہے۔ آپ کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ایک بات یاد رکھیں کہ سوشل میڈیا پر کوئی آپ کا اپنا نہیں ہے۔ یہ سب عارضی ہیں۔ آج ہیں تو کل نہیں ہوں گے۔ آپ کے اپنے وہ ہیں جو آپ کے گھر میں ہیں۔ جو آپ کے گلی محلے اور خاندان میں ہیں۔ اس لیے سوشل میڈیا پر موجود افراد اچھے ہوسکتے ہیں مگر کب تک یہ آپ نہیں جانتے۔ ایک بات اپنے ذہن میں رکھیں کہ سوشل میڈیا پر ایک شخص آپ کا ہے تو وہ اسی وقت اور بے شمار افراد کا ہوسکتا ہے۔
لڑکیوں کوہراساں
ایسے بہت سے گروہ ہیں جو پاکستان میں باقاعدہ ہیکنگ کرتے ہیں۔ میرا ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے دفتر جانا ہوا۔ وہاں مجھ سے قبل 4 گھنٹوں میں 5 ایسے کیس آچکے تھے جن میں فیس بک پر لڑکیوں کوہراساں کرنے جیسے واقعات شامل تھے۔ گزشتہ دنوں فیس بک اکاؤنٹس ہیک کر کے جنسی ہراساں کرنے والا 3رکنی گروہ کو راولپنڈی سے گرفتار بھی کیا گیا۔ جس نے80 سے زائد اکاؤنٹس ہیک کیے تھے۔ملزم نے باقاعدہ طور پر فیس بک پیج ہیکنگ سیکھی ہوئی تھی۔ سرگودھا سے ایک گروہ پکڑا گیا جس کے قبضے سے 18 انٹر نیٹ سرور‘ ہارڈ ڈسک‘ 6 کمپیوٹرز‘ جعلی پاسپورٹس‘ شناختی کارڈ اور کئی موبائل فون برآمدکیے۔ یہ گروہ فیس بک پر لڑکیوں سے دوستی کرکے یااکاؤنٹ ہیک کرکے تصاویر حاصل کرتا اور ان کے رشتے داروں کو دکھا نے کی دھمکیاں دے کر لڑکیوں اور ان کے خاندان والوں کو بلیک میل کرتاتھا۔ اسلام آباد سائبر کرائم کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر طاہر تنویر نے بتایا کہ 11ماہ میں 2000 سے زائد صرف فیس بک پرلڑکیوں کو ہراساں کرنے کی شکایات موصول ہوئیں۔
انٹرنیٹ کے غلط استعمال قانونی کاروائیاں
پاکستان میں انٹرنیٹ کے غلط استعمال پر سنگین مقدمات اور سزا ؤں کا سلسلہ شروع کردیا گیا۔ سائبر کرائم بل 2014ء کے تحت ویب سائٹ ہیکنگ کو سائبر ٹیررازم قرار دیا گیا ہے جس کی سزا 14سال قید اور 5کروڑ روپے تک جرمانہ تجویز کیا گیا۔ انٹرنیٹ یا موبائل پر کسی خاتون کی کردار کشی کرنے والے شخص کو 1سال قید ہو سکے گی۔ بل میں انٹرنیٹ پربذریعہ فیس بک، ٹوئیٹر یا کسی اور سوشل نیٹ ورک پرکسی دوسرے کی شناخت اپنانے پر 6ماہ تک کی قید تجویز کی گئی ہے۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی نے سائبر برانچ کرائم بل 2015 ء کے تحت سوشل میڈیا پر غلط پراپیگنڈہ کرنے والوں کو سالوں قید اور لاکھوں جرمانہ ہوسکتا ہے، اسی طرح سرکاری ویپ سائٹس ہیک کرنے کی کوشش میں7 سال قید اور50 لاکھ جرمانہ ہوسکتا ہے اور کسی شخص کی شہرت یا پرائیویسی کو نقصان پہنچانے کی صورت میں 3 سال قید اور کئی لاکھ جرمانہ ہو سکتا ہے۔
فیس بک کے بارے میں ایک بات جان لینا ضروری ہے۔ فیس بک میں اسلام دشمنی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ فیس بک کو غیر جانب دار نہیں کہا جاسکتا۔ فیس بک نے فلسطینی صحافیوں اور میڈیا سینٹرز کے اکاؤنٹس بلاک کردیے۔ اس طرح کشمیر میں آزادی کی تحریکوں سمیت بیشمار کشمیریوں میں آواز بلند کرنے والوں کے اکاؤنٹس کو بلاک کیا گیا۔